| کسے خبر ہے بھلا، کیا پتا رہے نہ رہے |
| ابھی وہ میرا ہے کل کو مرا رہے نہ رہے |
| نبھاہ سے تو سروکار ہی نہیں ہے مجھے |
| ترا بھی کیا پتا تُو باوفا رہے نہ رہے |
| ہے سچ کہ مائلِ حسن و ادا ہوا تھا مگر |
| حسین اور بھی ہیں، تیرا خلا رہے نہ رہے |
| جواں ہے تُو ابھی، عمرِ رواں کے بوجھ سے ڈر |
| تری خدائی، ترا دبدبا رہے نہ رہے |
| رہے گا شوق و جنوں، سوز و ہجر، اور فریب |
| وصالِ یار و جمالِ وفا رہے نہ رہے |
| ابھی تو نام کا رشتہ ہے، آشنائی بھی ہے |
| بچھڑ گئے تو کوئی واسطہ رہے نہ رہے |
| جدید دور ہے، شہرِ ہوس سے ڈرتا رہ |
| کہ عاشقی بھی یہاں دیر پا رہے نہ رہے |
معلومات