اجالا ذکرِ علی کا دیکھو نگر نگر ہے گلی گلی ہے
یہ بات بغضِ علی میں اُن کو ہمیں پتہ ہے بری لگی ہے
بہارِ ذکرِ علی میں مومن کے دل کی مہکی ہوئی کلی ہے
مگر منافق کے دل میں ذکرِ علی سے پھر بے کلی ہوئی ہے
خداکے گھر سے علی ملے ہیں تبھی سے یہ کیفیت ہوئی ہے
جو لب پہ اپنے خدا خدا ہے تو دل میں اپنے علی علی ہے
وہی جلی ہے وہی خفی ہے وہی ولی ہے وہی علی ہے
بتاؤ واعظ یہ ہم نے تم سے صفات کسی بیان کی ہے
ہزار الزام ہم کو دے دو جو چاہو وہ نام ہم کو دے دو
مگر ہمیشہ زباں پہ اپنی علی علی تھا علی علی ہے
ثنائے حیدر جو کر کے دیکھا تو اس میں دوہرا اثر ملا ہے
کسی کا چہرہ کھلا کھلا ہے کسی کی رنگت اُڑی اُڑی ہے
ہماری عیدیں ہماری محفل ہمارے نعرے ہماری خوشیاں
ہماری خوشیوں سے دل میں تیرے مچی ہوئی کیوں یہ کھلبلی ہے
لحد سوال و جواب و محشر جزا و بخشش سے مطمئن ہوں
ہمیں یقیں ہیں ہمارے مولا نے بات پہلے سے کی ہوئی ہے
ہماری آنکھیں ہمارے آنسو ہمارا دل اور حسین کاغم
تمہارے سینوں میں شہ کے ماتم سے آگ پھر کیوں لگی ہوئی ہے
تری شکایت بہ روزِ محشر نبی ؐکی دختر سے میں کروں گا
جو کچھ کہا تھا خلافِ ماتم وہ بات دل پر لگی ہوئی ہے
شمار تیرا سخنوروں میں جو ہو رہا ہے ظہیر رضوی
کریم آقا کا یہ کرم ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

0
3