ہو سکتا ہے وہ بات دہرائی جائے
اسی بات کے خوف سے اٹھ کے آئے
غمِ زندگی ہے نہ ہی دردِ دل اب
عجب بے حِسی بے رخی کے ہیں سائے
ترے چپکے گھر کو ترنم نے گھیرا
مرے چیختے شہر میں قہر چھائے
ہے انسان خمسہ حواسوں کا قیدی
گئے وقت کی یاد کو چھو نہ پائے
کیا یہ ستم ہے کئی ہیرے پیارے
انھی خالی ہاتھوں زمیں میں دبائے
ستم گر کی یادوں نے راشد کے دل کو
ہے یوں آج گھیرا کہ بس ہائے ہائے
راشد ڈوگر

0
130