نِدا دو سَحر کو دَر اپنے وا کرے
کہ شب سے شمع کہاں تک وفا کرے
بُلاتا کیوں خِزاں کو ہے شباب خُود
مہک چمن میں رہے بس خُدا کرے
لہو غریب کا بھرتا تجوری میں
وہ راشی روپوں سے اب کیا زِنا کرے
کیا وجہ کہ نہ کُھل جائے قُفل خود
مکیں قفس کا تو دل سے دُعا کرے
شباب آئے نہ غُنچوں بیچاروں پر
کوئی غریبوں کے حق میں دُعا کرے
قبول ہوتی نہیں کیوں دُعا تری؟
یقیں سے اپنے وہ شک کو جدا کرے
کہ چھائی چار سُو ظُلمت دیے کے ہے
بُلاؤ مِؔہر کو آ کر ضِیا کرے

0
71