تن اجلوں کے من ہیں کالے
باہر ستھرا گھر میں جالے
کیا اپنے کیا ایرے غیرے
سب ہیں میرے دیکھے بھالے
کن سایوں نے آخر میرے
من آنگن میں ڈیرے ڈالے
میری ہی غفلت نے یارو
موزی میری بانہہ میں پالے
جو خود چاہے گرنا اسکو
کیا سمجھائیں کون سنبھالے
عرش ہلا کر رکھ دیتے ہیں
مظلوموں کی آہیں نالے
کس نے آکر چندا تیرے
کانوں میں ڈالے ہیں ہالے
چاندا کے ہالوں کو دیکھوں
یا اُن کے کانوں کے بالے
سچ راہوں میں پڑ جاتے ہیں
سب پیروں میں کانٹے چھالے
میرے حق میں لگ جاتے ہیں
دنیا کے ہونٹوں پر تالے
سوچو، آخر کیوں کہتے ہیں
سب ہی آفت کے پر کالے
سب کے ہی دل میں رہتا ہے
جو بھی چاہے ڈھونڈے پالے
موت اک ایسی سچائی ہے
جب چاہے جس کو بھی آ لے
دل کے ٹکڑے کر دیتے ہیں
الفاظوں کے نشتر بھالے

0
34