کبھی چلتے چلے جانا، کبھی رکنا، ٹھہر جانا
سفیرِ رازِ ہستی کا عجب ہم نے سفر جانا
تو تھا بھی قبلِ پیدائش، تو بعدِ مرگ بھی ہوگا
مسلسل تو سفر میں ہے، جو ہستی کو اگر جانا
تری ہستی میں کچھ تو ہے، تجھے جو ہست رکّھے ہے
جو ہستِ ہستی جانا، پھر تو ہستی خوب تر جانا
خودی میں ہست جو ہستی ہے، اس ہستی پہ مرجانا
"بقا ہے نام کس کا؟ اپنی ہستی سے گزر جانا"
مٹائے اپنی ہستی جو ذکیؔ وہ ہست ہو جائے
تو جو بھی ہست ہو جائے، دہر اس کو اَمَر جانا

0
143