نوجواں! مغربی انداز و تفکر سے نکل
طرز اغیار پسندی کے تسخر سے نکل
صاحب ظرف کبھی اپنے تکبر سے نکل
"پیکر ناز کبھی ذات کے پتھر سے نکل"
بے حسی، بے بسی، بے ہودگی سے ناطہ توڑ
ذلت وخواری کے ارذل سے تصور سے نکل
جچتی حلقہ بگوشی نہیں فطرت کو ترے
طوق محکومی کے بھڑکائے تنور سے نکل
ہے مناسب یہی ہو انس ومحبت دل میں
باہمی توڑ کے نقصان و تضرر سے نکل
تو جہالت سے نکل، فن میں مہارت کو دکھا
عصر حاضر کے چکاچوند، تحیر سے نکل
نامرادی نہ پنپنے کبھی پائے ناصؔر
من میں ارمان رہے، یاس و تحسر سے نکل

0
5