بات کھل کر سامنے جب آ گئی
شرم ان کو خود بخود پھر آ گئی
وہ جو کہتے تھے ہمیں نادان ہے
عقل اپنی دیکھو ان کو کھا گئی
دل نہیں کہتا کہ ان سے عہد ہو
دل میں تھی جو آج لب پر آ گئی
بارہا ان کی ادائیں دیکھ کر
پارسائی میں بھی جنبش آ گئی
فکر عیش و عشرتِ دنیا رہا
آخرت کا خوف دنیا کھا گئی
اک حسیں صورت جو مثلِ چاند ہے
کیسی باتوں میں مجھے الجھا گئی
میں سمجھتا تھا بڑی معصوم ہے
وہ پری وش کر مرے اجزا گئی
اس کے لہجے نے کیا بے زار ہے
یوں طبیعت تو نہیں اکتا گئی
اب جلال ایسے نہ پھیرو بات کو
کاکل اس کی ہے تجھے بہکا گئی

0
7