مجھے خبر ہے کہ ملنا نہیں ہے تونے کبھی
خبر ہے یہ بھی کہ خوابوں نے ٹوٹ جانا ہے
نہ دل سے تونے کبھی مجھ کو دینی ہے آواز
نہ میں نے تجھ کو بلانا ہے نام لے کے ترا
مری حیات کے گلشن کو کھا گئی ہے خزاں
کہ اس میں تیری محبت کا گل نہیں مہکا
ترے دیار سے آیا نہیں پیامِ جنوں
تری شمیم نے رکھا مری صبا کو نہاں
اگر تو خوشبو ہے گل میں مرے زرا سی مہک
اگر شفق ہے تو لہرا تو آسماں پہ مرے
اگر ہے وقت تو میری حیات میں آ جا
اگر ہے نور تو دل میں سرور دے مجھ کو
مجھے خبر ہے کہ یہ سب تو ہو نہیں سکتا
مجھے خبر ہے کہ ملنا نہیں ہے تونے مگر
ترے لیے مری آنکھوں کا پیار کیوں کم ہو

0
15