| جو تجھ سے ملن کی دعا میں نے کر دی |
| محبت میں کیسی خطا میں نے کر دی |
| کہ خود سے جو بیگانہ کرتا ہے آخر |
| اسی عشق کی ابتدا میں نے کر دی |
| یوں بسنا تھا دنیا میں تیری جو میں نے |
| کہ ساری خدائی خفا میں نے کر دی |
| اگرچہ رہی تیری بے اعتنائی |
| جو کرنی ہی تھی وہ وفا میں نے کر دی |
| وہ شوقِ تمنا میں لے کے چلا ہوں |
| کہ خود سوزی کی انتہا میں نے کر دی |
| گلہ مجھ سے کچھ بھی تو بنتا نہیں ہے |
| جو قیمت لگی تھی ادا میں نے کر دی |
| تو کیسے کہے گا مجھے بے وفا اب |
| کہ جاں اپنی تجھ پر فدا میں نے کر دی |
| تری ہر خوشی کے لئے یہ محبت |
| ہے خود سے مری جاں جدا میں نے کر دی |
| یہی تھا اثاثہ مری زندگی کا |
| جو قربان اپنی انا میں نے کر دی |
| یہ تیرا ہمایوں صلہ ہے وفا کا |
| جو اسکی محبت سزا میں نے کر دی |
| ہمایوں |
معلومات