رشتے ناتے گُم ہو جائیں
جب ہم سے، میں تم ہو جائیں
آنکھیں تو آنکھیں چاہت میں
زلفوں کے خَم، خُم ہو جائیں
اس کی یادوں کے جھرمٹ میں
یوں بیٹھیں ہم گم ہو جائیں
جیسے سب دنیا والے ہیں
کیسے ہم، میں تم ہو جائیں
ہم سے بد قسمت، قسمت کے
سورج چاند انجم ہو جائیں
معصوموں کا دیس بنا کر
اس کا شہر ِقم ہو جائیں
ستر دو لانے والوں کے
ہم پیروں کے سم ہو جائیں

0
61