پھر ترا اس گلی میں جانا ہو
جس میں محبوب کا ٹھکانہ ہو
تُو یہ چاہے وہ بام پر آئے
وہ ترے سامنے روانہ ہو
جاتے جاتے رُکے وہ کچھ لمحے
تجھ کو گویا گلے لگانا ہو
مسکرا کر تجھے وہ یوں دیکھے
جیسے تُو قیمتی خزانہ ہو
تجھ کو محسوس ہو کہیں دل میں
اس سے رشتہ کوئی پرانا ہو
تیرے احباب رشک سے دیکھیں
اور حاسد ترا زمانہ ہو
ہر قدم امتحان ہو تیرا
زیست بھی اس کا اک بہانہ ہو
وہ وہاں پر پہنچ ہی جاتا ہے
جس جگہ جس کا آب و دانہ ہو
ہر قدم سوچ سوچ کر دھرنا
کیا خبر کس نے آزمانا ہو
روٹھنے کی نہ سوچنا اس سے
اس کو مشکل نہ پھر منانا ہو
طارق اس کی گلی سے ہو آئیں
جانے پھر جانا یا نہ جانا ہو

0
7