جو ظلمتِ شب کا چیر دے دل وہ نورِ قمر تو پیدا کر |
تاریک جہاں تابندہ ہو جس سے وہ سحر تو پیدا کر |
گلشن میں بہت مل جائیں گے کنجشک و فرومایہ کرگس |
بیباک جفاکش مت والے شاہیں کا جگر تو پیدا کر |
جو سرد لہو کو گرما دے ، خاکسترِ دل کو دہکا دے |
کہ سوزِ جگر کی گرمی سے وہ شعلہ، شرر تو پیدا کر |
میدانِ عمل میں تو بھی کبھی تو اے دل ! آکر دیکھ ذرا |
تنقید بہت آسان عمل ہے خود میں ہنر تو پیدا کر |
ہو گرمِ سفر، جادہ پیما ،پھر قافلہ ہائے شمس و قمر |
اے راہِ محبت کے رہرو وہ راہ گزر تو پیدا کر |
اے کاش تو اپنی ہستی کو اے ساکنِ دریا جانے ذرا |
تو نازشِ قعرِ دریا ہے اندازِ گہر تو پیدا کر |
کردیں گے نہنگوں کے مسکن ہر آن تہہ و بالا جو ترنگ |
اے بحرِ تلاطم خیز ذرا طوفانی بھنور تو پیدا کر |
ہرشی کی حقیقت ہو افشا خورشیدِ قیامت کی مانند |
اے صاحبِ عقل و خرد ، دانا، باریک نظر تو پیدا کر |
گردش بھی وہی ایّام وہی افلاک وہی وسعت بھی وہی |
بیباک پروں میں اے شاہؔی پروازِ بدؔر تو پیدا کر |
معلومات