| گو ہاتھ تو ملائے عداوت نہیں گئی |
| ہم خاک ہوگئے پہ کدورت نہیں گئی |
| دل میں خلش ہوتی رہی جو بار بار پر |
| سلجھاؤ بھی کئے تھے یہ ذلت نہیں گئی |
| جو کام آئے وقت پہ ساتھی وہی کھرا |
| دوست جو بھی پرانے تھے رغبت نہیں گئی |
| کچھ حادثات رونما ایسے بھی ہو چکے |
| عرصہ گزر گیا ہے یہ وحشت نہیں گئی |
| ہائے ستم ظریفی کہ مفلوج الحال ہیں |
| کوشش تو رات دن ہی کی، غربت نہیں گئی |
| بیدار کب ہونگے سوچیں ناصؔر بھلا کبھی |
| حالات جھیلے پھر بھی جو غفلت نہیں گئی |
معلومات