میں نے دلِ مضطر کو یہ سنا رکھا ہے |
ان سب مہ جبینوں میں خدا نے دغا رکھا ہے |
بل کھاتی گرتی ہے تیرے رخسار پہ یوں |
تو نے اس زلف کو سر پہ ہی چڑھا رکھا ہے |
الفاظ گری نے بھی گھٹنے ہیں ٹیک دیے |
تجھ سے بولوں یہ حوصلہ ہی کہاں رکھا ہے |
سب رکھتے ہیں گلدان و گلدستہ سجا کے |
میں نے کمرے میں تیری یادوں کو سجا رکھا ہے |
مانا کہ بہت سوں سے ہے واسطہ میرا یاں |
لیکن کسی کو بھی تجھ سے بڑا نہ سوا رکھا ہے |
معلومات