میں نے دلِ مضطر کو یہ سنا رکھا ہے
ان سب مہ جبینوں میں خدا نے دغا رکھا ہے
بل کھاتی گرتی ہے تیرے رخسار پہ یوں
تو نے اس زلف کو سر پہ ہی چڑھا رکھا ہے
الفاظ گری نے بھی گھٹنے ہیں ٹیک دیے
تجھ سے بولوں یہ حوصلہ ہی کہاں رکھا ہے
سب رکھتے ہیں گلدان و گلدستہ سجا کے
میں نے کمرے میں تیری یادوں کو سجا رکھا ہے
مانا کہ بہت سوں سے ہے واسطہ میرا یاں
لیکن کسی کو بھی تجھ سے بڑا نہ سوا رکھا ہے

1
93
جناب - میں صرف زبان و بیان کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہا ہوں
میں نے دلِ مضطر کو یہ سنا رکھا ہے
ان سب مہ جبینوں میں خدا نے دغا رکھا ہے
-- دغا رکھا نہیں جاتا - رکھی جاتی ہے - دغا مؤنث لفظ ہے

بل کھاتی گرتی ہے تیرے رخسار پہ یوں
تو نے اس زلف کو سر پہ ہی چڑھا رکھا ہے
اگر کسی مشہور یا استاد شاعر کے کلام سے کچھ نقل کرنا ہے تو اسے بلکل ویسا ہی مگر "" میں لکھیں۔ اگر مختلف کرنا ہے تو اسے دوسرے طریقہ سے لکھیں

الفاظ گری نے بھی گھٹنے ہیں ٹیک دیے
گری کے ساتھ لفظ واحد استعمال ہوتا ہے - جیسے بازیگری - شیشہ گری- کاریگری وغیرہ - تو لفظ بنے گا لفظ گری مگر یہ اصطلاح استعمال نہیں ہوتی - لفظوں کی بازیگری کی اصطلاح استعمال ہوتا ہے

سب رکھتے ہیں گلدان و گلدستہ سجا کے
گلدان اور گلدستہ کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے تو آپ دو بار اسے نہیں لکھ سکتے۔

مانا کہ بہت سوں سے ہے واسطہ میرا یاں
لیکن کسی کو بھی تجھ سے بڑا نہ سوا رکھا ہے

بڑا کا لفظ محبوب کے لیے تو نہیں استعمال ہوتا اگر آپ کر بھی لیں تو سوا کی اردو غلط ہو جائیگی تجھ سے سوا کسی کو ، نہٰیں ہوتا ہے - تیرے سوا کسی کو ہوتا ہے

0