گر رکھا آپ نے نگاہوں میں |
آئیں گے تب ہی تو پناہوں میں |
حال نا پوچھئے ابھی ورنہ |
"رت بدل جائے گی سوالوں میں" |
چاند شرمائے، حسین ہے اتنا |
یار کی باتیں ہوں ہزاروں میں |
شاخ در شاخ مسکراتی ہو |
گُل، کلی کِھل اُٹھے بہاروں میں |
سوچ اغیار کی پرکھنا ہے |
چالیں رہتی چُھپی ہیں چالوں میں |
خوف رب کا دلوں میں رکھنا ہے |
ورنہ پھنستے رہیں گناہوں میں |
ڈھونگ غربت کا بھی نہیں ناصؔر |
مفلسی تو چھلکتی چھالوں میں |
معلومات