اک داستانِ ظلم رقم کر رہے ہو تم |
جو اس طرح سے ہم پہ ستم کر رہے ہو تم |
ایسا نہ ہو دلوں کی تمہیں ہائے لگ پڑے |
پر کیف شاخ دل کی قلم کر رہے ہو تم |
ہر چند جانتے ہیں تجھے ہم قریب سے |
احباب و یار پر ہی ستم کر رہے ہو تم |
دلدل میں اس جگہ کے ہمیں چھوڑ جاؤگے؟ |
دریا ستم کا تنہا بَہَم کر رہے ہو تم |
جو سر خدا کے در کے لیے ہی تھا محترم |
وہ سر درِ عدو پہ یوں خم کر رہے ہو تم |
اک خواب رات میں نے جو دیکھا وہ جھوٹ ہے |
ٹوٹے دلوں پہ رحم و کرم کر رہے ہو تم |
حسانؔ دل میں تھی جو وہ چاہت چلی گئی |
اب اعتبار دل سے ختم کر رہے ہو تم |
معلومات