اک داستانِ ظلم رقم کر رہے ہو تم
جو اس طرح سے ہم پہ ستم کر رہے ہو تم
ایسا نہ ہو دلوں کی تمہیں ہائے لگ پڑے
پر کیف شاخ دل کی قلم کر رہے ہو تم
ہر چند جانتے ہیں تجھے ہم قریب سے
احباب و یار پر ہی ستم کر رہے ہو تم
دلدل میں اس جگہ کے ہمیں چھوڑ جاؤگے؟
دریا ستم کا تنہا بَہَم کر رہے ہو تم
جو سر خدا کے در کے لیے ہی تھا محترم
وہ سر درِ عدو پہ یوں خم کر رہے ہو تم
اک خواب رات میں نے جو دیکھا وہ جھوٹ ہے
ٹوٹے دلوں پہ رحم و کرم کر رہے ہو تم
حسانؔ دل میں تھی جو وہ چاہت چلی گئی
اب اعتبار دل سے ختم کر رہے ہو تم

0
27