ٹوٹی کرچیاں چبھتا ساماں دیکھتے ہیں،
بچا کر نظریں سوئے جاناں دیکھتے ہیں۔
ہر شے ہمیں خورشید درخشاں دکھتی ہے،
اپنی خامیوں کا ہم یاں زیاں دیکھتے ہیں۔
گرتے ہیں شبنم کی طرح بے بس آنسو،
ہم بکھرتے دل کے ارماں دیکھتے ہیں۔
بس پھرتیں ہیں دعائیں ہماری در بدر اب،
باب اجابت پر بھی ایماں دیکھتے ہیں۔
بستئ دل کو ہوائے وقت نے مار دیا،
پردۂِ پرساں میں بھی ہم حیواں دیکھتے ہیں۔
نخلِ دل ہرا ہونے کا امکاں نہیں ہے،
ہم بے سر و سامانی کا ساماں دیکھتے ہیں۔
کھا چکی ہے دیمک غموں کے بام و در کو،
تو آسودہ نہ اب کوئی مہماں دیکھتے ہیں۔
ہم تو زار مہ نو تھے کہ اس نے ہمیں اے معاذ،
جب بھی غور سے دیکھا، کہا ہاں دیکھتے ہیں۔

0
31