لوٹ تو آؤ گے، لوٹاؤ گے دن رات کسے |
پھر میسر بھلا آئیں گے یہ لمحات کسے |
خوب لگتا ہے ابھی دیس سے پردیس تمھیں |
کام ہے خوب یہاں، آتے ہیں سندیس تمھیں |
ایک دن دیکھنا پہنچے گی بہت ٹھیس تمھیں |
فیصلہ کر جو چکے ہو تو اجازت کیسی |
میں تمھیں روک لوں ایسی مری جرأت کیسی |
جاؤ تم شاد رہو، سختئ فرقت کیسی |
دل پہ رکھ لوں گی میں پتھر، نہ کروں گی ہائے |
تا دمِ زیست، سراسر نہ کروں گی ہائے |
وعدہ ہے تم سے، ذرا بھر نہ کروں گی ہائے |
تم وہاں جاؤ گے، پردیس، سزا دو گے مجھے |
ہو کے مجبور، وہاں جا کے دغا دو گے مجھے |
مجھے معلوم ہے، چپکے سے بتا دو گے مجھے |
چند دن بعد محبت مری بٹ جائے گی |
گوری پہلو سے تمھارے جو لپٹ جائے گی |
میری تقدیر نیا صفحہ الٹ جائے گی |
تب مجھے یاد تمھاری ہی سہارا دے گی |
میرے جذبات کی کشتی کو کنارا دے گی |
قدرتِ حق مجھے بیٹا بڑا پیارا دے گی |
ہونے لگ جائے گی کچھ مجھ کو توجہ حاصل |
اور ہو جاؤں گی کچھ میں بھی زیادہ مائل |
گوری کر دے گی تمھارے لیے پیدا مشکل |
اچھے ہوں گے نہ تب اتنے بھی تمھارے حالات |
اپنے بیٹے سے ملاقات کی تم کر سکو بات |
جیل تک جانے کے دے گی تمھیں گوری خدشات |
زندگی سے تمھیں ہونے لگے گی اکتاہٹ |
ہو گی بد بخت، بد اخلاق وہ گوری منہ پھٹ |
اور تمھاری ذرا تب جائے گی صحّت بھی گھٹ |
دولت و زر تو بہت جمع کرو گے پردیس |
زندگی نصف سے اوپر تو جیو گے پردیس |
آنا بھی چاہو گے، مجبور رہو گے پردیس |
کتنے احباب کو کاندھا بھی نہ دے پاؤ گے |
رشتہ داروں کے جنازوں میں نہیں آؤ گے |
کتنے ہی آخری دیداروں کو پچھتاؤ گے |
دم بہ دم وقت گزرتا ہی چلا جائے گا |
ایک لمحہ بھی فراغت کا نہیں آئے گا |
ہجر دونوں کو ہمیں گُھن کی طرح کھائے گا |
پھر اچانک سے عجب واقعہ ہو گا واقع |
تمھیں معلوم نہ ہو گا کہ ہُوا کیا واقع |
جو نہ واقع ہُوا وہ ہو گیا گویا واقع |
جب کئی روز گزر جائیں خاموشی میں |
تمھیں ہونے لگے گی فکر سی، بے فکری میں |
چابیاں بھولنے لگ جاؤ گے تم جلدی میں |
ایسی گھبراہٹیں پہلے نہ ہوئی ہوں گی کبھی |
لاکھ رنجیدگیاں ہوتی رہی ہوں گی کبھی |
تم نے باتیں یہ مگر یاد نہ کی ہوں گی کبھی |
ذکر اک دوست سے کرتے ہوئے رو دو گے تم |
دیس کی خامشی اشکوں میں سمو دو گے تم |
میرے شکوے سبھی اک لمحے میں دھو دو گے تم |
دوست جانے کا تمھیں دیس کہے گا اک بار |
دیس آنا تو تمھیں تب بھی لگے گا دشوار |
لیکن آخر کو تمھیں ہونا پڑے تیار |
ہو گا احساس عجب، لوٹنا اک مدت بعد |
ہاتھ خالی سے لگیں گے تمھیں تب دولت بعد |
تمھیں فرصت ملے گی پر ملے گی مہلت بعد |
دیکھتے بھاگ کے لگ جاؤ گے بیٹے کے گلے |
بال، بازو بہت الجھاؤ گے بیٹے کے گلے |
ہار سو بوسوں کے پہناؤ گے بیٹے کے گلے |
ماں کہاں ہے تری، بیٹا! مجھے جلدی سے بتا |
بولتے جاؤ گے تم، چُپ سا رہے گا بیٹا |
تمھیں دیکھے گا، بہت زور سے پھر چیخے گا |
اور بازو سے پکڑ کر تمھیں لے آئے گا |
میرے کمرے میں پہنچتے ہی یوں چلّائے گا |
ماں! یہاں دیکھیے، اور میز سے ٹکرائے گا |
خالی کمرے میں مگر آہ! مگر ہو گا کون |
ہائے! آنے کی تمھارے کرے گا پروا کون |
کون تنہا رہا، رہ جائے گا پھر تنہاؔ کون |
زندگی بھر کے سنا پاؤ گے حالات کسے |
پھر میسر بھلا آئیں گے یہ لمحات کسے |
لوٹ تو آؤ گے، لوٹاؤ گے دن رات کسے |
لوٹ تو آؤ گے، لوٹاؤ گے دن رات کسے |
معلومات