زباں پر آئی باتیں کس نے روکی ہیں بتاؤ تو
مجھے تم اچھےّ لگتے ہو ذرا نزدیک آؤ تو
بڑی دلکش ہیں رعنا ہیں دلوں کی بستیاں ہمدم
عیاں ہو جائے گا خود ہی کسی کو دل میں لاؤ تو
بہت مغموم لگتے ہو کہو کیا بات ہے جاناں
کسی کو مان کر اپنا دلی دُکھڑے سناؤ تو
مرے کمرے میں آویزاں تری تصویر ہے دلبر
کسی دن دیکھ لو آ کر کبھی تشریف لاؤ تو
محبت میں خدائے کبریا کا نور بستا ہے
کبھی تخلیقِ خالق کو صنم اپنا بناؤ تو
سنا ہے مَیں نے تم کو دعوائے ترکِ تعلّق ہے
کبھی ہمّت کرو اور آ کے مجھ کو خود بتاؤ تو
دلوں کے بُعد کی اکثر وجہ مالی تفاوت ہے
مٹا کر اس خباثت کو نئی تمثیل لاؤ تو
سنا ہے شوقِ موسیقی بھی ہے کچھ خواجہ صاحب کو
اگر ایسا ہے تو یارو کبھی محفل سجاؤ تو

0
175