کب سارا جہاں مانگا ہے
ایک ہی انسان مانگا ہے
تھوڑی سی روشنی کے لیے
تھوڑا سا دالان مانگا ہے
فائدے کی بات کب کی ہے
میں نے تو نُُقصان مانگا ہے
دل کے بُت خانہ کے لیے
عشق کا قُرآن مانگا ہے
رات کے آخری لمحوں میں
دل کا سامان مانگا ہے
جسم کا پھول ادھورا ہے
روح کا گُلدان مانگا ہے
کُچھ حسین لمحوں کے لیے
نُور کا خوان مانگا ہے
اس کے سوا کون اپنا فیصل
اُس کا ہی احسان مانگا ہے
فیصل ملک
از
الطائف ، السعودیہ

130