خوش تم سے تھا خدا تو تب و تاب دے گیا |
ناراض ہو گیا ہے جو سیلاب دے گیا |
روٹھے ہوئے خدا کو منائیں کسی طرح |
کوئی یہ مشورہ تمہیں نایاب دے گیا |
بھولے ہو کیا خدا وہ رحیم و کریم ہے |
تھی تشنہ لب جو قوم ، اسے آب دے گیا |
ہوتا ہے یہ سفینہ کسی اور ہاتھ میں |
ساحل کا راستہ کبھی گرداب دے گیا |
خالی وہ کب ہوا ہے عطا اس نے جو کیا |
دریا اتر کے ، دیکھو تو پایاب دے گیا |
تعبیر کی تلاش میں نکلا کریں گے ہم |
آنکھوں میں اس لئے بھی کوئی خواب دے گیا |
اس کی نگاہِ ناز کا ایسا ہوا اثر |
کچھ تیز دھڑکنیں دلِ بے تاب ، دے گیا |
طارق غبارِ راہ نے منظر چھپا دیا |
بادَل چھٹا تو موسمِ شاداب دے گیا |
معلومات