خوش تم سے تھا خدا تو تب و تاب دے گیا
ناراض ہو گیا ہے جو سیلاب دے گیا
روٹھے ہوئے خدا کو منائیں کسی طرح
کوئی یہ مشورہ تمہیں نایاب دے گیا
بھولے ہو کیا خدا وہ رحیم و کریم ہے
تھی تشنہ لب جو قوم ، اسے آب دے گیا
ہوتا ہے یہ سفینہ کسی اور ہاتھ میں
ساحل کا راستہ کبھی گرداب دے گیا
خالی وہ کب ہوا ہے عطا اس نے جو کیا
دریا اتر کے ، دیکھو تو پایاب دے گیا
تعبیر کی تلاش میں نکلا کریں گے ہم
آنکھوں میں اس لئے بھی کوئی خواب دے گیا
اس کی نگاہِ ناز کا ایسا ہوا اثر
کچھ تیز دھڑکنیں دلِ بے تاب ، دے گیا
طارق غبارِ راہ نے منظر چھپا دیا
بادَل چھٹا تو موسمِ شاداب دے گیا

46