رات بھر بیٹھے تھے جو گھاٹ پہ نقشاء لے کر |
جانے کس راہ سے بھاگے ہیں وہ اعضاء لے کر |
غیز کا ابر چلا شیر کی آنکھوں میں ایاں |
بادل مرگ چلا خوف کا سایا لے کر |
اسنے مولا کو میرے خیر کہ دیکھا ہی نہیں |
ورنہ خد دست پہ سر آتی زلیخا لے کر |
معجزہ پیاس کی وسعت کا دکھاتا ہے جری |
کہ وہ دریا میں اتر آتا ہے سہرا لے کر |
جانے کیا کسنے کہا کون سنے کیا جانے |
ہم تو مجلس سے مگر آئے ہیں ہثّا لے کر |
تبر و تیر و سناں پر علی اصغر کی ہنسی |
رہ گیا منہ پہ ستم ہار کا دھبّا لے کر |
بول اٹھے عرش پہ حیدر کہ علمدار ہے یہ |
جب چلا شیرِ علی مشک میں دریا لے کر |
ساقی کوثر و فردوس پلا دے جو ہمیں |
حشر کے روز وہی مشکِ سکینہ لے کر |
خواہشیں لاکھ سہی در پہ جری کے صایم |
کس ترہ جاؤگے کردار تم ایسا لے کر |
معلومات