غازۂ عارضِ گلنار ہے یا رنگِ شفق |
چشم میگوں ہے یا پھر بادۂ گلرنگ کوئی |
جنبشِ لب یا کوئی ناز سے کھلتا ہوا گل |
خوشبوئے فصلِ گل و بار یا گیسو کی مہک |
ماہ و پروین صفت ، اوج مکیں ، زہرہ جبیں |
ہم کہ آزردہ دل و جان جگر تھام چلے |
یوں خیال آتا ہے جب جانِ وفا شام ڈھلے |
جب کبھی ذکر ترا ہوتا ہے محفل میں مری |
سانس تھمتی ہوئی لگتی ہے رگیں پھٹنے کو |
دھڑکنیں تیز ہوئی جاتیں ہیں سینے میں مرے |
سسکیاں بن کے تڑپتا ہے مرا دردِ جگر |
دل کے آنگن میں اتر آتے ہیں بادل غم کے |
اور آنکھوں سے برستی ہیں تری یادیں صنم |
اس گھڑی اے ستم و جور و جفا کے پیکر |
اپنی حالت کو جو دیکھوں تو یہ آتا ہے خیال |
اک فقط میں ہی نہیں مجھ سے کئی اور دیوانے ہوں گے |
شامِ تنہائی میں جو اشکوں کا پیالہ تھامے |
اپنے سینوں میں جو معصوم سا جذبہ لیکر |
بر سرِ بزم کہیں گوشۂ تنہائی میں |
چپکے چپکے سے کہیں آہیں جو بھرتے ہوں گے |
شاہراہوں پہ کھڑے کوچہ و بازار میں گم |
غم کے مارے جو سرِ راہ سسکتے ہوں گے |
بستر مرگ پہ ہر روز تڑپتے ہوں گے |
زیست کے ہاتھوں شب و روز ہی مرتے ہوں گے |
پر اے مغرور و جفا کیش و ستم پیشہ صنم |
تو نے ان مجنوں و فرہاد پہ کیا ڈھائے ستم |
جن کی تقدیر بجز جور و جفا کچھ بھی نہیں |
جن کی تصویر بجز صدق و وفا کچھ بھی نہیں |
کتنی شامیں تری یادوں میں چراغاں کرکے |
کتنی راتیں تری امید میں جاگے ہوں گے |
کتنی صبحوں کو ترے نام کا کلمہ پڑھ کر |
اپنے خوابوں کے نشیمن کو سجائے ہوں گے |
آہ کیا لوگ تھے جو تیرے گرفتار ہوئے |
شوخئِ حسنِ رخِ یار کے بیمار ہوئے |
شوقِ دیدار میں مقتول سرِ دار ہوئے |
ہائے ان سادہ مزاجوں کی صداقت پہ نثار |
جو بھی اس راہ میں آئے ہیں بصد صدق و یقیں |
ابنِ آدم کی روایات محبت کے نشاں |
یوسف مصر کی بے داغ جوانی کے امیں |
لیکن ان شوق کے ماروں کو بھلا کیا معلوم |
دلکش و ہوشربا چشم سیہ گوں کا فسوں |
فتنہ سامانِ حرم ، عشوہ گر و غمزہ فروش |
خواہرِ شوخ زلیخا کا حسیں دامِ فریب |
بنتِ حوا کے حسیں روپ کا رنگین قفس |
اور اس زلفِ پریشاں کی وہ بھینی سی مہک |
شوق انگیز و سحر خیز وہ فطرت کی لچک |
ہائے ان شوخ اداؤں کا وہ اندازِ ستم |
وہ حسیں جسم و حسیں روح و حسیں ذات و صفات |
جس کی سانسوں سے چمن زار مہک اٹھتا ہے |
لالہ و نرگس و گلزار دہک اٹھتا ہے |
بلبلِ زمزمہ پرداز چہک اٹھتا ہے |
پھر بھی محرومِ تمنا تھے جو محروم رہے |
اپنے ممدوح کی نظروں میں وہ مذموم رہے |
ہاں مگر اے دلِ محرومِ یقیں ، جانِ حزیں |
یادِ ایام کے ہر زخم فراموش کیے |
ظلمتِ شب میں دل و جاں کو فروزاں کرکے |
شامِ تنہائی میں رہتا ہوں چراغاں کرکے |
معلومات