مری امید کی اک رو سی جھل ملاتی ہے
ترے خیال کی اک لو جو جگمگاتی ہے
تمام دھند غموں کی پگھلنے لگتی ہے
ترے خیال کی جب دھوپ گن گناتی ہے
نقاب حسن کو کیا آر ہو زمانے سے
یہ چاندنی تو نقابوں سے چھن کے آتی ہی
سرور دل کا مراا قید ہے اسی پل میں
خوشی‌ جو تیری کلائ میں کھنکھناتی ہے
گل نکھت ہو جو بھیگے ہو جیسے شبنم سے
ترے خیال کی خوشبو بھی دل لبھاتی ہے
ترے بغیر تصور سے ڈر سا لگتا ہے
کہ دل کی لو بھی دئے جیسی تھرتھراتی ہے
تمام خواب حقیقت بدلنے لگتے ہیں
یہ آرزو بھی زرا جب بھی کلکھلاتی ہے
اے شاہ پھول کتابوں ذہن میں زندہ رکھ
نمی بہار کی نا اڈ کے جانے پاتی ہے
شہاب الدین‌شاہ قنوجی

109