اس کی وفا وہ داستانِ صد جفا کس سے کہوں
گزرے ہیں دل پر رنج کیا کیا اے خدا کس سے کہوں
کب جل گیا ہے گلشنِ دل کب بجھی آنکھیں مری
سوزِ نہاں کی کب ہوئی ہے ابتدا کس سے کہوں
میری جوانی کیا ہوئی وہ ہجر کا غم کیا ہوا
وہ عشق کا افسانہ آخر کیا ہوا کس سے کہوں
کس نے لگائی آگ خوابوں کے گلستاں کو یہاں
کس نے کِیا پھر یہ فسادِ جاں بپا کس سے کہوں
سب لوگ سمجھے تھے کہ میں اپنے لیے روتا تھا تب
لیکن حقیقت میں تھا کیا وہ مَسْئَلَہ کس سے کہوں
ہر موڑ پر ٹھہرے، مگر مڑ کے نہیں دیکھا کبھی
یہ بے بسی، یہ بے کسی، حالِ وفا کس سے کہوں
خاموش ہیں لب اور نظر بس دیکھتی رہتی ہے اب
ہر بات دل کی ہو گئی ہے بے صدا کس سے کہوں
شامِ الم کی رُت میں ہے، یادوں کا جھرمٹ ہر طرف
کیا رات گزری ہے یہاں، سُونی فضا کس سے کہوں

0
82