اڑانے لگ گئی ہے باد صر صر آشیانے کو
کٹی ہے عمرِرفتہ میری جس گھر کے بنانے کو
نہ کر تو غیر سے مل کر یوں میرے قتل کی باتیں
ترا بس ہجر کافی ہے مجھے زندہ جلانے کو
سرِ رہ حال دل کا کھول کر سب رکھ دیا میں نے
نجانے کب کوئی آ کر سنے میرے فسانے کو
مری دیوانگی کے قصے میرے خبط کی باتیں
نہ جانے کون بتلاتا ہے یہ باتیں زمانے کو
یہ تو معلوم ہے ہم کو ہمیں تو رد ہی ہونا ہے
تبھی تو مان لیتے ہیں تمھارے ہر بہانے کو
یہی دستور ہے پیڑوں کا جب طوفاں رسیدہ ہوں
گرا دیتے ہیں سب پتے ہوا کے سنگ اڑانے کو
بہا کر لے گئیں موجیں جو تنکے گھر کے تھے ساغر
بڑی محنت سے جوڑے تھے وہ اپنا گھر بسانے کو

0
82