فہم نہ تجھ میں ہو اگر تو تیرا وقت ڈھل گیا
ذہین جو بھی ہے یہاں انہیں کا زور چل گیا
غرور تجھ کو تھا بڑا طاقتوں پہ شجر کی
ذراسی کیا ہوا چلی تو جڑ سے ہی نکل گیا
دل بہت ہی شاد تھا منزلیں قریب تھی
کہ جیتنے لگے جو ہم نصیب چال چل گیا
مجھ سے کچھ خطا ہوئی نہ موج کا قصور تھا
کنارہ جب قریب تھا ہوا کا رخ بدل گیا
بڑھائی اپنی کر رہا تھا اس قدر تو شان سے
نقاب جھوٹ کا گرا تو تیرا دجل کھل گیا
ہوا تھی میرے روبرو اور ہاتھ میں چراغ تھا
یہ میرے رب کا فضل ہے میرا چراغ جل گیا

0
11