فہم نہ تجھ میں ہو اگر تو تیرا وقت ڈھل گیا |
ذہین جو بھی ہے یہاں انہیں کا زور چل گیا |
غرور تجھ کو تھا بڑا طاقتوں پہ شجر کی |
ذراسی کیا ہوا چلی تو جڑ سے ہی نکل گیا |
دل بہت ہی شاد تھا منزلیں قریب تھی |
کہ جیتنے لگے جو ہم نصیب چال چل گیا |
مجھ سے کچھ خطا ہوئی نہ موج کا قصور تھا |
کنارہ جب قریب تھا ہوا کا رخ بدل گیا |
بڑھائی اپنی کر رہا تھا اس قدر تو شان سے |
نقاب جھوٹ کا گرا تو تیرا دجل کھل گیا |
ہوا تھی میرے روبرو اور ہاتھ میں چراغ تھا |
یہ میرے رب کا فضل ہے میرا چراغ جل گیا |
معلومات