چلچلاتی دھوپ ہے کچھ سایہ کر
آتے جاتے اس طرف آ جایا کر
رہ نہیں پاتے ٹھکانے ہوش پھر
اعتدال و عاجزی سے کھایا کر
مت کسی کو جانے انجانے میں تُو
راز دل کے بے سبب بتلایا کر
اس طرح سے اس کو مت بدنام کر
پاؤں میں جوتی پہن کر آیا کر
رب تجھے ہے یہ دُعا کر دے معاف
جو کِیا اُس پر کبھی پچھتایا کر
میرا تو دل ہو گیا ہے گھر ترا
بس یہیں رونق تُو اب فر مایا کر
حسن تیرا ہے تری شرم و حیا
رنگ چہرے پر حیا کے لایا کر
اس بہانے دید کا ساماں بھی تھا
ماسی بھٹّی اب بھی تُو گر مایا کر
چاہتیں ہوں جس جگہ عامر وہیں
جانا ہو تو خوشدلی سے جایا کر

0
17