شام جب دور ڈھلی ہوتی ہے
مجھ کو محسوس کمی ہوتی ہے
شمع جلتی ہے کوئی یادوں کی
دل کو جب تیری لگی ہوتی ہے
آن بستی ہے خیالوں میں وہ
دھوم اک جسکی مچی ہوتی ہے
آنکھ منزل پہ پہنچ جاتی ہے
دنیا بھی تیری سجی ہوتی ہے
دریا پیاسا مجھے لگتا ہے یوں
منتظر جیسے گھڑی ہوتی ہے
اک صدا شب کو وہی آتی ہے
بات جو دن میں سنی ہوتی ہے
سامنے چاند ستاروں میں پھر
تیری تصویر بنی ہوتی ہے
ہم اماں پاتے ہیں تجھ سے شاہد
پیاری جو زندگی بھی ہوتی ہے

0
87