| پہلے پلکوں پہ ہم کو بٹھا یا گیا |
| پھر زمیں پر یکا یک گرا یا گیا |
| سب سے ملتے رہے وہ تو ہنس ہنس کے اب |
| آج میرا ہی دل کیوں دکھایا گیا |
| انکی صورت پہ کیوں دل یہ آیا مرا |
| رہنما تو خرد کو بنایا گیا |
| ہم تو گم تھے یہاں اک حسیں خواب میں |
| دے کے حالات کچھ اب جگایا گیا |
| سب نے پونچھا بہت یہ ہوا کیا تجھے |
| حال ہم سے مگر نا بتایا گیا |
| چشمِ بینا بھی ہو ہوں یہ جلوے ترے |
| سارا عالم یوں ہی یہ سجایا گیا |
| کئ نصلیں جواں جس کے نیچے ہویں |
| کاٹ کر وہ شجر اب گرایا گیا |
| روز مرتا رہوں یوں تڑپنے سے میں |
| کیا یوں ہی اے خدا دل بنا یا گیا |
| گل کی شاخیں نہیں ہے یہ خارِ شجر |
| کیوں نشیمن یہاں یہ بنایا گیا |
| ہم سے ملتے نہیں وہ تو پہلی طرح |
| دور رہکر ہمیں اب ستایا گیا |
| ہم پہ بگڑے بہت آج بھی ہیں خفا |
| آئینہ جب انہیں وہ دکھایا گیا |
| دیکھو اسلام بس اس کو گرنا ہی تھا |
| گھر ہی دل دل پہ یہ کیوں بنایا گیا |
معلومات