ہماری جان کو جس نے فقط بے جان سمجھا تھا
ہماری سادگی ہم نے اُسے بھگوان سمجھا تھا
تمنا جو بھی ہم نے کی اسے خِلجان سمجھا تھا
ہمیشہ ہی ہمیں اس نے بہت نادان سمجھا تھا
وہ جس کے پیار میں ہم سانس کی مالائیں جپتے ہیں
ضرورت جب پڑی اس کی ہمیں انجان سمجھا تھا
کسی کا ساتھ ہم نے درد کادرمان سمجھا تھا
مگر یہ ساتھ دینا اس نے بس احسان سمجھا تھا
سنائی جب غزل ان کو پریشاں ہو کے وہ بولے
بڑی لمبی غزل ہے میں اسے دیوان سمجھا تھا
جو آکے بیس دن سے گھر پہ دھرنا دے کے بیٹھے ہیں
میں ان کو تین دن کے واسطے مہمان سمجھا تھا
طاہرہ مسعود

18