رہتی خیال میں اب روضہ کی جالی ہے
جس یاد سے جہاں نے قسمت جگا لی ہے
وِردِ درود یارو سینے کی ہے ضیا
برکت بڑی خدا نے خود اس میں ڈالی ہے
ہر شاخِ گُل ہے تازہ بطحا کے باغ میں
پھل دار اس چمن میں ہر ایک ڈالی ہے
محشر میں پیارے دولہا میرے رسول ہیں
دوزخ سے آپ نے یہ اُمت بچا لی ہے
آتی ہے گونج شاید فدوی کے کان میں
بطحا سے ایک دعوت اب آنے والی ہے
دانِ نبی سے چلتا سارا ہے یہ جہاں
ہستی میں شان جن کی سب سے نرالی ہے
دافع بلا نبی جی مُشکل کشا بھی ہیں
یادِ نبی نے آفت دنیا کی ٹالی ہے
جو بھی ملا جہاں کو ہے فیضِ مصطفیٰ
دامن میں خیر اس کے یہ کس نے ڈالی ہے
انعامِ مصطفائی ہستی پہ عام ہیں
خرم جہاں میں ہر دم جن کا سوالی ہے
ناموسِ مصطفیٰ پر قُربان جو کیا
جزبہ حسین دیکھیں کیسا مثالی ہے
محمود کامرانی دونوں جہاں میں ہے
لیکن ہے شرط اے دل ناطہ بلالی ہے

0
4