شب کے بجھتے سے چراغوں میں جلایا ہوا دل
منتظر پلکوں کی چوکھٹ پہ بٹھایا ہوا دل
میری آنکھوں میں بسایا ہوا اک چہرہ ہے وہ
شہر الفت کی فصیلوں پہ سجایا ہوا دل
لوگ محفل میں جسے شوق سے سنتے ہیں غزل
سوز کی تان پہ ، ہر گیت میں گایا ہوا دل
لوگ افسانہ سمجھتے رہے دنیا میں جسے
ہر کہانی کی حقیقت میں سمایا ہوا دل
کیسے میں چاند کہوں کیسے ستارہ میں اسے
خاک کا پتلا ہے مٹی کا بنایا ہوا دل
بوجھ سے جس کے ہوئی جاتی ہے کبڑی سی کمر
روز شاہد کے کسی غم میں اٹھایا ہوا دل

1
91
روز شاہد کے غم میں اٹھایا ہوا دل

0