مرے پیچھے ہے دشمن اور مرے آگے سمندر ہے |
اِدھر بھی موت کا ڈر ہے اُدھر بھی موت کا ڈر ہے |
ہمارے دیش کے قانون کو وہ کیسا کر ڈالا |
ابھی تک جھوٹ باہر ہے مگر جو سچ ہے اندر ہے |
اگر اپنوں میں چھڑ جاۓ لڑائی جنگ یا جھگڑے |
تو پھر خود کے ہی گھٹنے ٹیک لینا سب سے بہتر ہے |
کبھی پانی پلاتا ہے کبھی وہ زہر دیتا ہے |
اسے دشمن کہوں یا دوست دونوں میں برابر ہے |
وہ کرکے قتل میرے ہاتھ میں تلوار رکھ بھاگا |
سو میرے قتل کا الزام اب خود میرے ہی سر ہے |
تُو قد سے چھوٹا ہے ہی عمر میں بھی مجھ سے چھوٹا ہے |
تری ہے عمر ستر اور میری عمر اٹھتر ہے |
تڑپتا ہے زمانہ مجھ کو پانے کے لئے یونسؔ |
تو مجھ کو پا لیا ظاہر ہے یہ تیرا مقدر ہے |
معلومات