| تصور میں گیا جب میں ترے دیدار کرنے کو |
| تصور ہی میں آئی تم بھی مجھ سے پیار کرنے کو |
| مرے سینے سے لگ کر ہنستے ہنستے تم نے یوں بولا |
| میں سب کچھ چھوڑ آئی پیار کا اظہار کرنے کو |
| سہانی تھی گھڑی اور موسم ِ سرما بھی چھایا تھا |
| یہ دل بھی راضی تھا اس پیار کا اقرار کرنے کو |
| بنا تیری محبت کے یہ دل بیمار تھا کب سے |
| دوا بن کر کے آئی تم مجھے گلزار کرنے کو |
| گلے لگ کر کے سوئیں اب نہ دیکھیں رات ہے یا دن |
| نہ آۓ کوئی اب ہم کو کبھی بیدار کرنے کو |
| تجھے مانگوں ترے والد سے بس تھی آرزو اتنی |
| مگر والد ترا تیار تھا انکار کرنے کو |
| کبھی گر روٹھ جاؤ تو سنو اے میری جاں یونسؔ |
| کبھی نا چھوڑ کر جانا مجھے بیزار کرنے کو |
معلومات