خوابوں کو اپنے دل میں سجائے ہیں ہم
آرزو پانے کی بھی بسائے ہیں ہم
پیرہن، کاسہ جو اک گدائی لئے
لے کے ہاتھوں میں کشکول آئے ہیں ہم
روشنی سے مسافر کو ہو فائدہ
راہوں میں دیپ کیسے جلائے ہیں ہم
کچھ خبر آئی دلبر کے آمد کی ہے
پلکیں فرطِ مسرت، بچھائے ہیں ہم
شوخ و چنچل اشاروں میں باتیں ہوئی
آنکھوں ہی آنکھوں سے جو پلائے ہیں ہم
خوف حالات کا رکھتے ہرگز نہیں
زخم گہرے بھی کتنے اٹھائے ہیں ہم
ٹھوس ناصؔر عزائم کے مالک ہیں ہم
بن کے امید کی شمع چھائے ہیں ہم

0
62