خوابوں کو اپنے دل میں سجائے ہیں ہم |
آرزو پانے کی بھی بسائے ہیں ہم |
پیرہن، کاسہ جو اک گدائی لئے |
لے کے ہاتھوں میں کشکول آئے ہیں ہم |
روشنی سے مسافر کو ہو فائدہ |
راہوں میں دیپ کیسے جلائے ہیں ہم |
کچھ خبر آئی دلبر کے آمد کی ہے |
پلکیں فرطِ مسرت، بچھائے ہیں ہم |
شوخ و چنچل اشاروں میں باتیں ہوئی |
آنکھوں ہی آنکھوں سے جو پلائے ہیں ہم |
خوف حالات کا رکھتے ہرگز نہیں |
زخم گہرے بھی کتنے اٹھائے ہیں ہم |
ٹھوس ناصؔر عزائم کے مالک ہیں ہم |
بن کے امید کی شمع چھائے ہیں ہم |
معلومات