دیدارِِ حُسنِ یار سرِ عام تو کیا
مُدّت کے بعد دل نے مرے کام تو کیا
جھوموں خوشی سے کیوں نہ سرِ بزمِ میکشاں
اک شام اُس نے جام مِرے نام تو کیا
قِسمت میں مے نہیں تھی جو میرے کیا ہوا
اُس نے قریب لب کے مِرے جام تو کیا
پائی نہ ہم نے دولتِ دُنیا تو کیا ہوا
حاصل یہ دردِ دل کا ہے انعام تو کیا
خاموش رہ کے اہلِ جُنوں نے یہ اب کی بار
شور و شغب سے اچھا اک اِقدام تو کیا
اچھا ہے اس بہانے ذرا نام ہو گیا
طارق کو تم نے دُنیا میں بدنام تو کیا
طارق نوادوی

0
116