اب کس کو حال دل کا بتایا کرے کوئی
جب ایسے یاد آ کے ستایا کرے کوئی
وہ آگئے ہیں اب تو ذرا کھل کے سامنے
سپنوں سے دل کو اپنے سجایا کرے کوئی
چھلنی ہوئی ہے روح اسے دُکھ میں دیکھ کر
ایسے میں غم کو میرے بھلایا کرے کوئی
اس کا مطالبہ ہے فقط ایک بات کا
وہ روٹھ جائے گر تو منایا کرے کوئی
حسن و جمالِ یار کا بھی ذکر خوب ہے
میں گیت اس کے لکھوں تو گایا کرے کوئی
آنکھیں بچھا کے رکھی ہیں میں نے تو راہ میں
مہمان بن کے گھر میں تو آیا کرے کوئی
دیکھا مجھے تو دشمنِ جاں نے بھی یہ کہا
بیٹھا ہے کب سے دھوپ میں سایہ کرے کوئی
حیوان بھی تو رکھتے ہیں اپنا سبھی خیال
غم اپنے دوستوں کا بھی کھایا کرے کوئی
جب اختیار ان کا ہے تو مان لیجئے
شکوہ زبان پر تو نہ لایا کرے کوئی
خود کو یونہی نہ ڈالئے اب امتحان میں
ادراک اپنا آپ بھی پایا کرے کوئی
طارق قریب دل کے وہی شخص جانیے
یادوں میں آئے جب تو رُلایا کرے کوئی

0
27