قدم قدم پہ یہاں پر کیوں جال رکھا ہے
ہر ایک لب پہ یہاں یہ سوال رکھا ہے
امیرِ شہر پہ بے انت رحمتیں برسیں
غریبِ شہر کو کیوں پائمال رکھا ہے
نہ مہر ہے نہ محبت نہ ہی وفا نہ گلہ
لہو کا رنگ نجانے کیوں لال رکھا ہے
دیا شعور تو پھر لا شعور ناں دیتا
بنا کے سب کو یہاں یرغمال رکھا ہے
سزا چنی ہے بغاوت کی میں نے خود سے ہی
کہ خود کو خود سے ہی میں نے نکال رکھا ہے
سبق غلط ہوا تاریخ کا یہاں شاہدؔ
ہر اک زوال کے آگے زوال رکھا ہے

18