آہنی عزم و ارادہ آہنی اعصاب تھے |
نشتر و جنگ و بہادر آہنی احباب تھے |
اپنے نصب العین پر سب کچھ نچھاور کر دیا |
اس لئے شاداں تھے دائم اس لئے شاداب تھے |
نہ فرستادہ تھے وہ نہ دعوائے الہام تھا |
پھر بھی لاکھوں دھڑکنوں کے منبر و محراب تھے |
لاکھ طوفاں راستوں میں بجلیاں خرمن میں تھیں |
کیا بھنور کیا بحر و بر زیر و زبر پایاب تھے |
درہم و دینار سے دائم کنارہ کش رہے |
اوجِ گردوں پر درخشاں انجم و ماہتاب تھے |
لاغر و کمزور تن نرم و نحیف و زار جاں |
پھر بھی وہ سب پِٹ گئے جو رستم و سہراب تھے |
یوں تو بزمِ عاشقاں سے یہ چمن معمور ہے |
پر وہ سب سے ماورا اک گوہرِ نایاب تھے |
آج بھی زنبیلِ ملّتّ میں ہیں لاکھوں دیدہ ور |
جو کبھی ماضی میں مِلّت کا سنہری باب تھے |
شاعرِ مشرق سے کہنا بانئی ارضِ وطن |
خواب تو اچھّا تھا پر تعبیر ہے دنداں شکن |
معلومات