پیکر بھی ہے ایسا جو نصابوں میں ملے |
خوشبو کا بدن وہ جو گلابوں میں ملے |
تُو آ ابھی چُھوٹے جاں خرابوں سے مری |
مرتی ہوئی زندگی خرابوں میں ملے |
فردوس میں ہو وہ رنگ شاید کہ نہ ہو |
اب رنگِ حیات جو شبابوں میں ملے |
دیکھے مری آنکھ اب حقیقت میں اُسے |
وہ شخص کہ جو فقط کتابوں میں ملے |
فطرت کی عنایتیں یہ بھی کم نہیں ہیں |
ہم زیست میں حسن کے جنابوں سے ملے |
کچھ کہنے سے ضابطے مجھے روکتے ہیں |
اللہ کوئی نہ ان عذابوں میں ملے |
وہ شخص مجھے جو ہے دل و جاں سے عزیز |
کیوں ہو یہ ستم وہ بھی حجابوں میں ملے |
جو سوچ رہا ہوں میں وہی سوچے وہ بھی |
ہم واسطے کے سدا عتابوں میں ملے |
آنکھیں کوئی بھی سوال اس سے نہ کریں |
یُوں کیسے ہو حالِ دل جوابوں میں ملے |
اعجاز یہ جلدبازی اچھی نہیں ہے |
کیسے کھُلے جو سدا نقابوں میں ملے |
معلومات