تنہائیوں کی اب مجھے عادت سی ہو گئی |
خاموشیوں سے مجھ کو محبت سی ہو گئی |
خانہ بدوش بن کے گذاری ہے زندگی |
پرچھائیوں سے لوگوں کی نفرت سی ہو گئی |
جس راستے پہ چل کے اب آئے ہو میرے پاس |
چپ چاپ لوٹ جاؤ اسی راستے سے تم |
اب شامِ زندگی میں تمہارا میں کیا کروں |
آئے ہو میرے پاس کہ تم سے وفا کروں |
مجھ پر تمہارا قرض ہے لیکن جفا کا ہے |
کیسے میں اب یہ قرض تمہارا ادا کروں |
جس راستے پہ چل کے اب آئے ہو میرے پاس |
چپ چاپ لوٹ جاؤ اسی راستے سے تم |
میں پیار مانگتا رہا جو تم نہ دے سکے |
زر کے تمہاری عقل پہ تالے پڑے رہے |
دل کے تو ابن قیس تھے سر کیوں پھرے رہے |
کیوں میرے پاؤں در پہ تمہارے گڑے رہے |
جس راستے پہ چل کے اب آئے ہو میرے پاس |
چپ چاپ لوٹ جاؤ اسی راستے سے تم |
تم شکل سے بھی عام تھی اور عام سی ادا |
کیا دیکھ کر ہوا تھا تمہارے پہ میں فدا |
میں سادہ لوح شکل سے دھوکے میں آ گیا |
پھر میرے اعتبار کی مجھ کو ملی سزا |
جس راستے پہ چل کے اب آئے ہو میرے پاس |
چپ چاپ لوٹ جاؤ اسی راستے سے تم |
گذرے تھے سامنے سے مرے تم عدو کے ساتھ |
اور پھر عدو کے ہاتھ میں دیکھا تمہارا ہاتھ |
ہونٹوں پہ آ کے رک گئی جو دل میں تھی وہ بات |
پھر اس کے بعد زندگی تھی دائمی سی رات |
جس راستے پہ چل کے اب آئے ہو میرے پاس |
چپ چاپ لوٹ جاؤ اسی راستے سے تم |
جو زندگی سے مل نہ سکا اس کا غم بھی تھا |
پھر بے وفا صنم ملا اس کا الم بھی تھا |
شکوہ کیا نہ کوئی شکایت کسی سے کی |
پھر اپنی اس زبان کا مجھ کو بھرم بھی تھا |
جس راستے پہ چل کے اب آئے ہو میرے پاس |
چپ چاپ لوٹ جاؤ اسی راستے سے تم |
اب آ کے زندگی کو میں سمجھا ہوں اے صنم |
تم میرے پیار کے ابھی قابل نہیں رہے |
میں اک نئے سفر کی ابھی ابتدا پہ ہوں |
اور اس سفر میں تم مری منزل نہیں رہے |
جس راستے پہ چل کے اب آئے ہو میرے پاس |
چپ چاپ لوٹ جاؤ اسی راستے سے تم |
معلومات