مصیبت ، رنج و غم کی یہ فراوانی نہیں جاتی
یہ وہ اسباب ہیں جن سے غزل خوانی نہیں جاتی
بگاڑا خود کو اتنا میں نے اب آئینے کے آگے
کھڑے ہو جاؤں تو صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
یہ بہروں کا علاقہ ہے یہاں پر چیخنا ہوگا
یہاں خاموش لہجے کی زباں جانی نہیں جاتی
بڑا بیٹا ہوں میں گھر کا مجھے قابل بنا جلدی
مرے گھر سے خدا ساری پریشانی نہیں جاتی
فرشتہ دل ندامت پر ندامت کر رہا لیکن
جو مجھ میں نفس ہے کیوں اس کی شیطانی نہیں جاتی
کوئی آواز دے کر میرے اندر چھپ گیا شاید
مرے کانوں سے ان شورش کی حیرانی نہیں جاتی
مری آنکھوں کے آگے کس قدر آباد ہے دنیا
مگر اندر سے میرے کیوں یہ ویرانی نہیں جاتی
نئے دیوانوں کا شکوہ کریں ہم کس لیے خالد
فقیرِ عشق سے بھی خاک اب چھانی نہیں جاتی

0
15