لوگ کم کم ہیں محبّت کو بڑھانے والے |
جا بجا آئیں نظر ، آگ لگانے والے |
قہقہے ہم جو سنا کرتے تھے ان گلیوں میں |
اب نہیں باقی وہ دن ہنسنے ہنسانے والے |
میکدہ جن سے رہا کرتا تھا آباد کبھی |
لد گئے ، اب وہ کہاں پینے پلانے والے |
پھونک کر اپنے قدم رکھنا ہے یہ راہِ حیات |
سب چلے جاتے ہیں اس پر جو ہیں آنے والے |
اپنے انجام کو پہنچے سبھی آخر دشمن |
دیکھنا کون تھے وہ خوشیاں منانے والے |
چاہئے ایک نظر اپنے بھی اعمال پہ ہو |
کیا ہوئے جو تھے ہمیں راہ دکھانے والے |
ساتھ لے جائیں گے کیا ، زادِ سفر پاس ہے کیا |
ہم بھی اک روز ہیں اس راہ پہ جانے والے |
داستاں عشق کی طارق ہو رقم کوئی نئی |
لیلٰی مجنوں کے تو قصّے ہیں پرانے والے |
معلومات