بس ایک پل کا سفر ہے دوام تھوڑی ہے
یہ زہر کا ہے پیالہ یہ جام تھوڑی ہے
میں روز اپنی عدالت میں پیش ہوتا ہوں
بہشت کے لیے یہ اہتمام تھوڑی ہے
ملا نہ شغل کبھی جس سے عشق ہو مجھ کو
کہ جس میں دل نہ لگے اب وہ کام تھوڑی ہے
ہمارے درمیاں گہرا سکوت طاری ہے
کلام ہے تو سہی پر کلام تھوڑی ہے
جنابِ شیخ یہ میرا سوال آپ سے ہے
جو سچ کشید کرے شے وہ حرام تھوڑی ہے
نجانے کون اب لکھتا ہے گالیاں در پر
ذرا قریب سے دیکھو یہ نام تھوڑی ہے

0
39