جب ہٹے گا حجاب کیا ہوگا |
پھر تمنا کا باب کیا ہوگا |
منتظر ہے نگاہ رستے پر |
مضطرب دل کا خواب کیا ہوگا |
چند بوندوں سے تم پریشاں ہو |
آنسوؤں کا سحاب کیا ہوگا |
خواب لگتی ہے زندگی اپنی |
خواب ہے تو حساب کیا ہوگا |
جی رہے ہو نفس کی خواہش پر |
عشق عزت مآب کیا ہوگا |
چند لمحوں کی زندگانی ہے |
ہم سے بڑھ کر حباب کیا ہوگا |
اپنے دامن میں کچھ نہیں باقی |
اب حساب و کتاب کیا ہوگا |
ہم انہیں ڈھونڈتے رہے برسوں |
اس سے بڑھ کر سراب کیا ہوگا |
روبرو ہیں یہ جان کر بھی وہ |
آئینے کا جواب کیا ہوگا |
اپنی مرضی کے ہم بھی مالک ہیں |
ہم سے بڑھ کر نواب کیا ہوگا |
اب تو تعبیر کی نہیں حسرت |
بجھتی آنکھوں میں خواب کیا ہوگا |
کل ہی اٹھے تھے جھاڑ کر دامن |
اب ہمارا حساب کیا ہوگا |
عشق کا امتحان باقی ہے |
ماسوا غم نصاب کیا ہوگا |
دل کی ہجرت سے ہم نے جانا ہے |
ہجرتوں کا عذاب کیا ہوگا |
اپنی ہستی تو مٹ چکی کب کی |
اور خانہ خراب کیا ہوگا |
بے نشاں کا نشان ہے پایا |
اس عمل کا ثواب کیا ہوگا |
ان کو دعویٰ ہے پارسائی کا |
مقام دل پر حجاب کیا ہوگا |
عشق آتش لپٹ گئی ایسے |
دل سا جلتا کباب کیا ہوگا |
ہم بہاروں میں جل گئے ایسے |
اب خزاں کا عذاب کیا ہوگا |
معلومات