سامنے جب بھی کبھی اپنے جوانی آئی
یاد بیتی ہمیں پھر شام سہانی آئی
نیند جب بھی نہ کبھی آئی مری آنکھوں میں
سینے پر اپنے ابھر چوٹ پرانی آئی
زندگی کی ہے بسر رنج و الم میں اپنی
بات ہم کو نہ کوئی پھر بھی بنانی آئی
اس قدر سادہ طبیعت ہے کوئی اپنی بھی
دل کی حالت نہ کبھی ہم کو چھپانی آئی
نام آیا ترا بن کے کوئی عنواں اس کا
پھر زباں پر وہی اک قصہ ، کہانی آئی
آج بھی تازہ سرابوں پہ ہے ماضی اپنا
دشت کو خاک نہ اپنی ہی اڑانی آئی
روز کہتی ہے گلابوں کی سجی اک محفل
تجھ کو شاہد نہ محبت بھی نبھانی آئی

0
46