چل رہے ہیں جس ڈگر پر اس کی منزل ہی نہیں |
ایسی ضد کا فائدہ کیا جس کا حاصل ہی نہیں |
کیا کوئی ایسے سمندر سے بھی رکھّے گا امید |
جس سمندر کا جہاں میں کوئی ساحل ہی نہیں |
چھوڑ کر کشتی بھنور میں ناخدا کہنے لگا |
ڈوبتی ہے ڈوب جائے میَں تو شامل ہی نہیں |
مَیں قنوطی تو نہیں لیکن نہیں خوش فہم بھی |
اُمّتِ مسلم میں لگتا ہے کہ ہلچل ہی نہیں |
چھوڑ دو عشوہ طرازی غمزہ و ناز و ادا |
شوخیاں تو اُٹھ گئیں پر دل بھی مائل ہی نہیں |
کتنی ایجادات میں مصروف ہیں اقوامِ غیر |
سچ کہوں تو ہم میں کوئی اتنا قابل ہی نہیں |
کیا ملے گا مرثیہ گوئی سے اب خواجہ امید |
بھول جاؤ اس سفر کو جس کی منزل ہی نہیں |
بی۳ |
معلومات