دشواریوں سے ہی جزبوں میں نکھار آئے
جزبے ہی نا ہو گر نفسِ خلفشار آئے
بے لطف رونقوں میں کچھ جان لوٹ آئے
"اس زندگی میں لے کر کوئی بہار آئے"
اُس پار سوچتا ہوگا یار تو یہی بس
کشتی چلانے الفت کی کب جوار آئے
ہوتی نہیں ملاقاتیں جب بڑے دنوں تک
خلوت کی تب حسیں یادوں سے خمار آئے
ہو عام بربریت، فرطِ قلق جگائیں
اپنے ضمیر سے بھی ہلکی پکار آئے
تخریب کاری سے ہر ممکن بچیں رہیں ہم
بدخلقی سے دلوں میں میل و غبار آئے
مل جل کے رہنے سے ناصؔر گرہیں کھلنے لگتی
لے رائے و مشورہ تو سوچ و وِچار آئے

0
36